تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین
حوزہ نیوز ایجنسی| کیا علماء کرام، ذاکرین، مقررین، مصنفین، محققین و شعراء کرام میں وہ خوبیاں و بصیرت ہے کہ فضائل، عظمت، عجائبات، کمالات، اسوۂ توحیدی، حیات سیدہ، کردار بتول، عصمت اور عفت کا تذکرہ کر سکیں۔ جناب فاطمتہ الزہرا کا قرآن کریم کی آیات مبارکہ میں قصیدہ۔ ہے۔ آپ تمام خواتین جنت کی سردار ض، آپ تاجدار انبیاء و ختم المرتبت کی پارۂ جگر ض، امام المتقین کی شریک حیات، نوجوان جنت، حسنین و کریمین کی مادر گرامی ہیں۔
مفسر قرآن محسن ملت علامہ الشیخ محسن علی نجفی دام ظلہ الوارف فرماتے ہیں کہ لوگ ایام فاطمیہ میں شادی کرتے ہیں، پارٹیاں کرتے ہیں، جشن میں شامل ہوتے ہیں و دیگر تقاریب کا انعقاد کرتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں جبکہ ایسا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اہل تشیع کو مصائب فاطمہ زہراؑ اور ایام فاطمیہ سے واقفیت کا فقدان ہے۔ انھیں احساسات و محسوساتٍ مصائب نہیں۔ اور بہت حد تک علماء کرام و ذاکرینٍ ہند و پاک، یورپ، امریکہ، افریقہ اور ایشیائی ملکوں میں پھیلے، جن پر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ ان معزز حضرات جنھوں نے ہندوستان، پاکستان، ایران اور عراق کے حوزہ علمیہ سے فارغین ہوئے ہیں، عزادارانٍ سیدہ فاطمہؑ کے درمیان اور دورانٍ خطابت ایام فاطمیہ کے مقاصد، اہمیت و اہداف کی وضاحت کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ بہرحال، اس کو خصوصی اہتمام سے برپا کرنا چاہئے۔ اور اس ایام کو عشرۂ محرم الحرام سے کم نہیں بلکہ شہدائے کربلا کے عشرہ سے زیادہ اہمیت ہے۔
حضرت سیدہ فاطمہ الزھراء سلام اللہ علیھا کی 1435 ویں شہادت کے ایام منائے جا رہے ہیں۔ دروازۂ فاطمہؑ کو جلانا ایسا ہی ہے جیسے دروازۂ رسولؐ اللہ کا جلانا۔ یہ روایت امام موسیٰ کاظمؑ جب اپنے اصحاب سے بیان فرما رہے تھے اور جب ان جملوں پر پہنچے تھے تو راوی کا کہنا ہے کہ: "ان جملوں پر پہنچ کر حضرت موسیٰ کاظمؑ نے رونا شروع کر دیا اور بہت دیر تک روتے ہی رہے اور باقی گفتگو کا سلسلہ رک گیا۔ (بحار الانوار، جلد 22، صفحہ 476)
مصائب اہلبیتؑ کا تلخ ترین دن کے لیے امام جعفر الصادقؑ نے فرمایا "کربلا میں ہمارے مصائب جیسا کوئی دن نہیں مگر یومٍ سقیفہ(جس دن) امیرالمومنینؑ (کا حق غصب کیا گیا) فاطمہؑ، حسنؑ، حسینؑ، زینبؑ، ام کلثومؑ اور فضہؑ پر دروازہ جلایا گیا اور محسنؑ کو ٹھوکر سے قتل کیا گیا، یہ (دن مصائب میں) بڑا اور تلخ ہے کیونکہ یہ اصل دن ہے جب (کربلا کے مظالم کی) بنیاد رکھی گئی۔ (حسین بن حمدان الخصیبی، الہدایتہ ؟الکبریٰ، صفحہ 417)
یہ ایامٍ فاطمیہ جو ہر سال منایا جاتا ہے، یہ صرف اور صرف اس لیے برپا کیا جاتا ہے کہ آئمہ معصومینؑ، جن میں حضرت امام جعفر صادقؑ (المجالس الفاخرۃ-ماتم العشرہ الطاہرہ، صفحہ 270) اور امام رضاؑ (نفس المہموم، صفحہ 40) کا فرمان ہے۔ آئمہ اطہارؑ نے ایام فاطمیہ برپا کرنے کی تاکید کی ہے۔ اس کا ہدف، مقصد اور فضیلت بھی بیان کیا ہے۔ ایام فاطمیہ برپا کرنے والوں کو فاطمہ زہرا (س) کو حضرت زین العابدینؑ کی طرح بیمار کربلا یا امام رضاؑ کے مانند غریب الغربا ٕ نہ بنائیں، آپؑ کے صرف مصائب بیان نہ کریں بلکہ ان کی عظمت، فضیلت، قرآنی علم، صحیفے، عصمت، عفت، والد کی خدمت، شوہر کے حق کے لیے آواز بلند کرنا، بچوں کی تربیت، خادمہ کے کاموں میں ہاتھ بٹانا، صابرہ، شاکرہ، عابدہ، عالمہ، صدیقہ، اور طاہرہ و دیگر کرامات پر بھی خطابت، مکالمہ، سیمنار، سمپوزیم و گفتگو کا انعقاد، غور و فکر بھی لازمی ہے۔
حضرت سیدہ فاطمہ الزھراء سلام اللہ علیھا کا قصیدہ ام الکتاب پڑھ رہا ہے۔ آیات مودت، مباہلہ، طعام، تطہیر، ذی القربیٰ، مرج البحرین، ایثار، شجرہ طیبہ، صراط مستقیم، تعلیم اسما، صبر اور لیلتہ القدر، فضائل اہل سنت کی روایات میں اور اہلبیت علیہم السلام کی روایات میں قابل تحقیقی موضوعات ہیں۔
عزم رسول پاک کا مطلع ہیں فاطمہ
قرآں ہے جس کی نثر وہ مصرع ہیں فاطمہ
ختم الرسل کے خلق کا منبع ہیں فاطمہ
نسوان عالمین میں ارفع ہیں فاطمہ
و بین ثبوت خاتم پیغمبراں ہوءیں
یہ بھی رموز کن کے لیے رازداں ہوءیں
حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا کی گھریلو کاموں میں مصروفیات اور بیحد محنت و مشقت کے سلسلے میں امام المتقین، شوہر بتول سرور کائنات سے فرما رہے ہیں، اے نبی خدا! میں ساری بات آپ کو بتاتا ہوں در اصل یہ چکی چلاتی ہیں جس کی وجہ سے ان کے ہاتھ میں نشان پڑ گئے ہیں اور مشک میں پانی لانے کی وجہ سے گلے پر بھی اس کے نشان ابھر آیا ہے اور گھر کی صفائی ستھرائی کے سبب ان کے کپڑے بھی میلے ہوجاتے ہیں اور چولھے پر کھانا بنانے کی وجہ سے بھی کپڑے میلے ہی رہتے ہیں ان سب کام کی وجہ سے حسنین کو وقت نہیں دے پاتی ہیں۔ آج کی خواتین جنت الفردوس میں داخل ہونے کی متمنی فاطمہ سلام اللہ علیھا کے کردار کا مطالعہ کا مطالبہ کرتا ہے۔
(عورت) اگر بیٹی ہے تو رحمت، اگر بیوی ہے تو شوہر کے نصف ایمان کی وارث، اگر ماں ہے تو اس کے قدموں میں جنت لیکن فاطمتہ الزہرا سلام اللہ علیہ کی شان و شوکت دیکھئے: اس باپ کے لیے رحمت جو خود رحمت العالمین ہیں، اس شوہر کے لیے نصف ایمان جو خود کل ایمان ہیں اور آپ کے قدموں میں ان بیٹوں کی جنت ہے جو جنت کے سردار ہیں۔
کتنی بلند ہے بخدا شان فاطمہؑ، جزوٍ رسالت و امامت، صدیقہ کسا۶، فتح مباہلہ، تفسیر و شرح آئینہ تطہیر، صورت کوثر، معراج پیمبر کی بہشتی سوغات، تفسیر میں قرآن کی تنوین ایماں، اسی کے گھر سے جاری چشمۂ نور ہدایت، عالمین عورتوں کی سردار شفیعہ روز محشر، نور پیغمبر، لخت و گوشۂ قلب رسولؐ، کمال عفت و عصمت بقائے دیں ہے ترویج شریعت، وہ ہے کون و مکاں، کلام خالق کائنات کی کونین، قرآن ہے زبان کنیزانٍ فاطمہؑ، وہ ہیں فاطمہؑ جو پردہ نشین ہوکے بھی دین کو محفوظ کر گئیں۔
وجہ بقائے نسل نبوت ہے فاطمہؑ
سب سے عظیم جو ہے وہ نعمت ہے فاطمہؑ
اے نا شناس سورۂ کوثر کو پڑھ کر دیکھ
اللہ کے رسولؐ کی عزت ہے فاطمہؑ
مندرجہ بالا تحریر سے معزز قارئین سیدہ فاطمہ زہراؑ کی عظمت اور فضیلت لگ بھگ قطرہ بھر کا احاطہ کر چکے ہوں گے۔ راقم الحروف کی دلی خواہش ہے کہ مندرجہ ذیل تحریر سے عالم اسلام کی تمام خواتین حضرات چاہے وہ دنیا کی کسی خطہ کی باشندہ ہوں، پارۂ جگر رسولؐ کی حیات طیبہ اور ان کمال و فضل کا سنجیدگی سے مطالعہ کریں۔ ان روشنی میں اپنی زندگی، خاندان کے افراد کی زندگی، اپنے والدین، شوہر، فرزند، دختر، کنیز، پڑوسی اور دیگر رشتہ داروں کی دنیاوی و اُخروی زندگی کو متاثر کر ان افراد کی زندگی کو ترتیب، تشکیل، آراستہ، مہزب و سنوار سکتی ہیں۔ حضرت سیدہ فاطمہؑ کی نادر و نایاب گوہر سے مزین کردار جیسے اللہ سبحانہ کی شب و روز عبادت، زہد، تقویٰ، حق کی حفاظت، ایثار و رضا، صبر و شکر خدا، ہر خاتون اپنے کسب کمال کے لیے ان خصوصیات کا اتباع کرتے ہوئے اپنے آپ کو چراغ ہدایت کے لیے مثبت و مثالی کردار تمام خواتین کے لیے نمونۂ عمل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش و سعی کر سکتی ہیں۔
زیر نظر مضمون کے ذریعے اس بی بیؑ کا نام لکھنا چاہتا ہوں جن بی بیؑ کو آئمہ اطہار علیہم السلام نے اپنا سپاہ سالار سمجھا۔ رسول اکرمؐ کی پارۂ جگر کی ذات ہم لوگوں کے لئے نمونۂ عمل ہیں۔ آپ سپاہ سالار کے کام و خوبیوں سے بخوبی واقف ہیں۔ سالار آگے آگے چلتا ہے۔ آگے چلنے سے فوجیوں میں ہمت، قوت، جوش و ولولہ ہوتا ہے۔جب لشکر اپنے سالار کو پیچھے سے دیکھتا ہے تو افواج کو معرکہ عبور کرنے میں مشکل درپیش نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ سید الشہداء، حضرت امام حسین علیہ السلام نے کہا کہ میں یزید کی بیعت نہیں کر سکتا کیونکہ اللہ منع کرتا ہے، مومنین منع کرتے ہیں، رسولؐ اللہ منع کرتے ہیں، غیرت دار پاکیزہ نفوس منع کرتے ہیں اور وہ کیوں بیعت کریں وہ تو پاکیزہ آغوش، فاطمتہ الزہرا۴ اور سپاہ سالاری میں پرورش پائی۔
علامہ سید شہنشاہ حسین نقوی صاحب قبلہ اپنی ایک تقریر میں حضرت فاطمتہ الزہرا (س) کے کمالات اور مشکل کشا ٕ کی مشکل کشائی کے حوالے سے آیتہ اللہ محمد جواد فاضل لنکرانی طاب ثراہ کی کتاب "
عظمت فاطمہؑ بیان کرنے کے لیے یہ قابل ذکر ہے کہ امام زمانہ عجل اللہ تعالٰی الفرجہ الشریف فرما رہے ہیں کہ جناب فاطمہؑ گیارہ آئمہ کے لیے نمونۂ عمل ہیں لیکن عورتوں کے لیے صرف حضرت فاطمہؑ نمونۂ عمل قرار پائیں۔
آپ بہتر جانتے ہیں کہ باقی اولادٍ رسولؐ پہ بہت ظلم ہوئے، پردیسوں میں مار دیئے گئے مگر آج بھی اتنے سو سال کے بعد سب کی جائے مدفن موجود ہیں۔ لیکن آلٍ سعود ملعون پر اللہ کی لعنت اور امت مسلمہ کی بے شمار لعنت کہ حضرت سیدہ (س) کی قبر مقدسہ کو مسمار کردیا ہے اور شیعان اہل بیت مسلسل احتجاج، مظاہرہ اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ دختر رسولؐ کی جائے مدفن حکومت سعودی عربیہ بنوائے مگر ملعون آل سعود اور دشمنان اہل بیت نہیں بنوا رہے ہیں۔
آج جب زائرین ایران، عراق، شام اور لبنان جاتے ہیں تو مدفن اولاد رسولؐ کو دیکھتے ہیں، زیارت کرتے ہیں لیکن پھر مدینہ منورہ کی جانب جاتے ہیں تو یہی لگتا ہے کہ ان سب سے زیادہ مظلومہ سیدہ فاطمہ(س) بنت مصطفٰیؐ ہیں۔
نمونہ عمل کو حاصل کرنے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ نمونہ عمل ظاہر ہو، کیونکہ اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ گزشتہ دور میں جو جو شخصیات گزری ہیں وہ موجودہ دور کے افراد سے بہتر نمونہ عمل بن سکتے ہیں، کیونکہ نمونہ عمل کے حصول کا اصلی محور تربیت اور انسانی قدر و قیمت کے کلی اصول ہیں کہ جو زمانے کے گزرنے کے ساتھ پرانے نہیں ہوتے، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی بھی نمونہ عمل ہے، نہ صرف ہمارے بلکہ عالم بشریت کو نجات دینے والی شخصیت کے لیے بھی کیونکہ اس بزرگوار کی زندگی کا ہر پہلو ہمارے لیے روشن ہے اور تاریخ میں بیان ہوئی ہے اور جب دنیا باقی ہے تمام پاک و پاکیزہ ہستیوں کے لیے نمونہ عمل ہیں۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی پاک و پاکیزہ اور خوبصورت رحمتیں، ان کی زندگی کی نورانیت اور راتوں کو عبادت، ان کی سادہ زندگی، نا محرم افراد سے ان کا رد عمل، دینی احکامات میں ان کی مکمل پیروی، دینی اور دنیوی معیار کے مقابلے میں انسانی اقدار کو اہمیت دینا، چشم پوشی، ولایت کا دفعہ اور اسی کے ہزاروں کردار فاطمہ زہرا (س) کی بنیادی زندگی کے ہزاروں نکات ہیں جو ہمیشہ کے لیے نمونۂ عمل بن سکتے ہیں۔
فاطمہ زہراؑ سلام اللہ علیہا کے کردار کو سمجھنے اور آپؑ کو نمونۂ عمل جاننے کے لیے صرف اور صرف علما ٕ کرام و ذاکرین کی خطابت اور شعراء کرام کے اشعار کو ہی کافی نہ سمجھنا چاہیے بلکہ خود بھی کتابوں کا مطالعہ کریں جیسے: فاطمہ زہرا (س) اسلام کی مثالی خاتون (مولٔف: آیتہ اللہ ابراہیم امینی)، صدیقۂ کبریٰ حضرت فاطمہ زہراؑ کے بصیرت افروز خطاب (تحقیق، تقدیم اور ترجمہ: آیتہ اللہ علامہ سید ابن حسن نجفی)، مثالی خواتین(ڈاکٹر احمد بہشتی)، فدک ذوالفقار فاطمتہ الزہراؑ (سید محمد واحدی)، مصائب حضرت فاطمتہ الزہراؑ (علامہ سید شہنشاہ حسین نقوی)، انوار فاطمہؑ، حیات فاطمہ زہراؑ، زندگانی صدیقہ کبریٰ، سیدہؑ عالم کی مظلومیت، سیرت فاطمہؑ، صحیفۂ فاطمہؑ، شخصیت فاطمہؑ، فاطمہ زہراؑ اور قرآن، فاطمہ زہراؑ اپنے باپ کی ماں، حضرت فاطمہ زہراؑ فکر و شخص، فاطمہؑ طلوع سے غروب تک (آیتہ اللہ سید محمد کاظم قزوینی)، فاطمہ الزہراؑ اُسوہ توحیدی(استاد محترم علامہ سید جواد نقوی)، فاطمہؑ اپنے باپ کی ماں (آیتہ اللہ حسن رضا غدیری) اور فاطمہؑ، فاطمہؑ ہے (ڈاکٹر علی شریعتی)، فاطمہ زہرا اور دین کی شناخت، سیرت حضرت فاطمہ زہرا، چودہ ستارے، نقوش عصمت، خطبہ فدک، مقتل محسن، اگر اور بھی کوئی کتاب سیدہ فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا پر دستیاب ہو تو ضرور مطالعہ کریں اور دوسرے حضرات کو بھی کتاب پڑھنے کا مشورہ دیں۔ کتاب بھی روشن افروز کرتی ہے۔